اگر میرے فسانے میں مسرت کا کوئی پہلو نظر آئے
سمجھ لینا
تمہارے واسطے میں رات کے گنجان جنگل سے
چمکتے جگنوؤں کی قیمتی سوغات لایا ہوں
مرے اندر اندھیرے کا سمندر ہے
ابھرتا ڈوبتا رہتا ہوں میں جس میں
تمہیں معلوم ہے میرا عمل اب ختم ہے، اور رات باقی ہے
ابھی اک گھات باقی ہے
مرے آکاش کی حد میں ابھی سورج نہیں پہنچا
گھنی تاریکیوں میں چھٹپٹاتا ہوں
میں اپنے جسم کے دیوار و در سے سر کو ٹکراتا ہوں
پل میں ٹوٹ جاتا ہوں
نہ گھبراؤ کہ پھر سے خود کو یکجا کر رہا ہوں میں
نسوں میں اپنی پھر تازہ لہو کو بھر رہا ہوں میں
تمہارے واسطے میں رات کے گنجان جنگل سے
چمکتے جگنوؤں کی قیمتی سوغات لاتا ہوں
ذرا ٹھہرو! میں آتا ہوں
نظم
ٹھہرو! میں آتا ہوں
کمار پاشی