میں تری یاد کو سینے سے لگائے گزرا
اجنبی شہر کی مشغول گزر گاہوں سے
بے وفائی کی طرح پھیلی ہوئی راہوں سے
نئی تہذیب کے آباد بیابانوں سے
دست مزدور پہ ہنستے ہوئے ایوانوں سے
میں تری یاد کو سینے سے لگائے گزرا
گاؤں کی دوپہری دھوپ کے سناٹوں سے
خشک نہروں کے کناروں پہ تھکی چھاؤں سے
اپنے دل کی طرح روئی ہوئی پگ ڈنڈی سے
میں تری یاد کو سینے سے لگائے پہونچا
بستیاں چھوڑ کے ترسے ہوئے ویرانوں میں
تلخیٔ دہر سمیٹے ہوئے مے خانوں میں
خون انسان پہ پلتے ہوئے انسانوں میں
جانے پہچانے ہوئے لوگوں میں انجانوں میں
میں تری یاد کو سینے سے لگائے پہونچا
اپنے احباب ترے غم کے پرستاروں میں
اپنی روٹھی ہوئی تقدیر کے غم خواروں میں
اپنے ہم منزل و ہم راستہ فنکاروں میں
اور فن کار کی سانسوں کے خریداروں میں
میں تری یاد کو سینے سے لگائے پہونچا
یہ سمجھ کر کہ کوئی آنکھ ادھر اٹھے گی
میری مغموم نگاہی کو مجھے سمجھے گی
لیکن اے دوست یہ دنیا ہے یہاں تیرا غم
ایک انسان کو تسکین بھی دے سکتا ہے
ایک انسان کا آرام بھی لے سکتا ہے
خوں میں ڈوبی ہوئی تحریر بھی بن سکتا ہے
ایک فن کار کی تقدیر بھی بن سکتا ہے
ساری دنیا کے مگر کام نہیں آ سکتا
سب کے ہونٹوں پہ ترا نام نہیں آ سکتا
نظم
تیری یاد
وسیم بریلوی