تیرے خوابوں کے دریچوں سے ہٹا کر پردے
کیوں جگاؤں تری خوابیدہ تمناؤں کو؟
میرے ارمان سسکتے رہیں میرے دل میں
اور خبر تک نہ ملے شہر کی سلماؤں کو
ہائے وہ میرے خیالوں کی درخشاں وادی
جانے کیوں چاند ستاروں کی تمنا کی تھی
اٹھ گئی ہوگی یوں ہی آنکھ مری تیری طرف
لوگ کہتے ہیں سہاروں کی تمنا کی تھی
اس سے پہلے نہ خبر تھی مجھے میری محبوب!
زلف کے خم میں سیہ مار چھپے ہوتے ہیں
جن کو سب کہتے ہیں گلشن کی مہکتی کلیاں
ان کے دامن میں بھی کچھ خار چھپے ہوتے ہیں
کچھ نہیں اس کے سوا اور تمنا میری!
وقت کے ساتھ ہر اک زخم کو بھر جانے دے
پھر میں سمجھوں گا مری ہار مری ہار نہیں
چند لمحوں کی ہے یہ زیست گزر جانے دے
تیرے خوابوں کے دریچوں سے ہٹا کر پردے
کیوں جگاؤں تری خوابیدہ تمناؤں کو
نظم
تیری یاد میری بھول
صابر دت