مری نگاہ کو اب بھی تری ضرورت ہے
دل تباہ کو اب بھی تری ضرورت ہے
خروش نالہ تڑپتا ہے تیری فرقت میں
سکوت آہ کو اب بھی تری ضرورت ہے
یہ صبح و شام تری جستجو میں پھرتے ہیں
کہ مہر و ماہ کو اب بھی تری ضرورت ہے
بہار زلف پریشاں لیے ہے گلشن میں
گل و گیاہ کو اب بھی تری ضرورت ہے
زمانہ ڈھونڈ رہا ہے کوئی نیا طوفاں
سکون راہ کو اب بھی تری ضرورت ہے
وہ ولولے وہ امنگیں وہ جستجو نہ رہی
تری سپاہ کو اب بھی تری ضرورت ہے
خرد خموش جنوں بے خروش ہے اب تک
دل و نگاہ کو اب بھی تری ضرورت ہے
بیاں ہو غم کا فسانہ دل تپاں سے کہاں
یہ بار اٹھے گا مری جان ناتواں سے کہاں
ملا نہ پھر کہیں لطف کلام تیرے بعد
حدیث شوق رہی نا تمام تیرے بعد
جو تیرے دست حوادث شکن میں دیکھی تھی
وہ تیغ پھر نہ ہوئی بے نیام تیرے بعد
بجھی بجھی سی طبیعت ہے بادہ خواروں کی
اداس اداس ہیں مینا و جام تیرے بعد
بنا ہے حرف شکایت سکوت لالہ و گل
بدل گیا ہے چمن کا نظام تیرے بعد
ادائے حسن کا لطف خرام بے معنی
سرود شوق کی لذت حرام تیرے بعد
ترس گئی ہے سماعت تری صداؤں کو
سنا نہ پھر کہیں تیرا پیام تیرے بعد
وہ انقلاب کی رو پھر پلٹ گئی افسوس
بلند بام ہیں پھر زیر دام تیرے بعد
مثال نجم سحر جگمگا کے ڈوب گیا
ہمیں سفینہ کنارے لگا کے ڈوب گیا
نظم
تیرے بعد
سیف الدین سیف