EN हिंदी
تذلیل | شیح شیری
tazlil

نظم

تذلیل

آصف رضا

;

تم نے سنا
موسم نے سبزے کی زبانی کیا کہا؟

''یہ نہیں ان کی جگہ''
یہ بھی کہا کہ

''مطربوں کا طائفہ
ان کے لیے ہے صرف جن کا سامعہ

معتقد ہے صبح نو کے طربیہ الحان کا''
اور طائروں نے یک زباں

اس بات کی تصدیق کی
گردن ہلائی ساق پر

ہر پھول نے
اور پیٹھ دے کر اپنی خوشبو روک لی

منہ موڑ کر شاخوں نے روکی ہے ہوا
کترا کے گزری ہے روش دیکھو سحر

جو تھی ہماری دوست
اب ہم کو نہیں پہچانتی

کیا کر رہے ہیں ہم یہاں؟
اٹھو چلو!

کچھ ہے ہمارا بھی وقار
دیکھو! اشارے سے بلاتا ہے ہمیں وہ ریگ زار