اپنی فطرت کی بلندی پہ مجھے ناز ہے کب
ہاں تری پست نگاہی سے گلہ ہے مجھ کو
تو گرا دے گی مجھے اپنی نظر سے ورنہ
تیرے قدموں پہ تو سجدہ بھی روا ہے مجھ کو
تو نے ہر آن بدلتی ہوئی اس دنیا میں
میری پائندگئ غم کو تو دیکھا ہوتا
کلیاں بے زار ہیں شبنم کے تلون سے مگر
تو نے اس دیدۂ پر نم کو تو دیکھا ہوتا
ہائے جلتی ہوئی حسرت یہ تری آنکھوں میں
کہیں مل جائے محبت کا سہارا تجھ کو
اپنی پستی کا بھی احساس پھر اتنا احساس
کہ نہیں میری محبت بھی گوارا تجھ کو
اور یہ زرد سے رخسار یہ اشکوں کی قطار
مجھ سے بے زار مری عرض وفا سے بے زار
نظم
طوائف
معین احسن جذبی