کب سے یہ بار گراں
اپنے کاندھوں پہ اٹھائے ہوئے تنہا تنہا
گشت کرتا ہوں میں حیراں حیراں
میں نے ہر چند چھڑانا چاہا
اور مضبوط ہوئی اس کی گلو گیر گرفت
اور سنگین ہوا جسم جواں پر پہرہ
سامنے فاصلۂ لامتناہی
دل میں سیکڑوں من چلے ارمانوں کے رنگین چراغ
جن کی خوشبو سے معطر ہے دماغ
جن سے ممکن ہے کہ مل جائے مجھے
گم شدہ جنت کا سراغ
کب سے کاندھوں پہ اٹھائے ہوئے حیراں حیراں
وقت کا بار گراں
سوچتا ہوں کہ اگر
اس کے پیروں کے شکنجے سے نکل پاؤں میں
بے کراں عرصۂ ہستی میں بکھر جاؤں میں
نظم
تسمۂ پا
عزیز تمنائی