EN हिंदी
تسکین انا | شیح شیری
taskin-e-ana

نظم

تسکین انا

سلیمان اریب

;

جب کوئی قرض صداقت کا چکانے کے لیے
زہر کا درد تہ جام بھی پی لیتا ہے

اپنا سر ہنس کے کٹا دیتا ہے
زندگی جبر سہی جبر مسلسل ہی سہی

سہتا ہے
اور اس جبر کو سو رنگ عطا کرتا ہے

حرف کا صوت کا صورت کا فسوں کاری کا
میں اسے دیکھ کے چپکے سے کھسک جاتا ہوں

یہ تو میں خود ہوں وہ احمق جس کی
اپنی رسوائی میں تسکین انا ہوتی ہے