EN हिंदी
تصور | شیح شیری
tasawwur

نظم

تصور

افتخار اعظمی

;

اس شہر میں شام ہوتے ہی گلیوں کے نکڑ پر
سڑکوں کے کنارے زندہ دل لوگ

آنکھوں کے کٹورے لیے کھڑے ہو جاتے ہیں
اور شاخ گل کی طرح لچکتی مہکتی لڑکیاں

حسن کی خیرات بانٹتی پھرتی ہیں
خوبصورت تنو مند بچے

پھولوں کی طرح مسکراتے
ایک ہاتھ میں کھلونے

ایک ہاتھ میں ماں کی انگلی پکڑے ہنستے کھیلتے گزرتے ہیں
مے کدوں میں رند جام پر جام لنڈھاتے ہیں

گھروں میں پکنے والے کھانوں کی خوشبو
اشتہا کو تیز کرتی ہے

کتنا خوبصورت کتنا جان دار ہے وہ شہر جسے میری بند آنکھوں کے علاوہ
کسی اور نے نہیں دیکھا