نوک مینار پہ اٹکی ہوئی قمری سے بھلا
کیا پتہ خاک چلا
''آسماں حد نظر ہے کہ کمیں گاہ رقیب؟''
میں بتاتا ہوں مگر اپنے سخن بیچ میں ہے
آسماں ایک کبوتر ہے کہ جس کے خوں کی
پیاس میں سیکڑوں عقاب اڑا کرتے ہیں
موت بدکار شرابی ہے پڑوسی میرا
روز دروازے کے اس پار جو گر جاتا ہے
زندگی ایک چھچھوندر ہے کہ جس کی بد بو
بوئے یوسف میں بھی ہے گریۂ یعقوب میں بھی
علم سرکس کے مداری کے دہن کا شعلہ
ذائقہ منہ کا بدلنے کو بہت کافی ہے
اور میں ایک حسیں خواب کہ جس میں گم ہے
خواب دیکھنے والا وہ کمیں گہہ کا رقیب

نظم
ترکیب صرفی
چودھری محمد نعیم