ترک وعدہ کہ ترک خواب تھا وہ
کام سب ہو چکا جو کرنا تھا
بھر چکا جام شرط وصل جسے
صبح تک، آنسوؤں سے بھرنا تھا
وہ سخن اس کے مدعا میں نہیں
مجھ کو جس بات سے مکرنا تھا
کوئی تقسیم کار مہر و نجوم
یا حساب شب نزول کوئی
دشت لاحاصلی کی محدودات
شہر محرم کا عرض و طول کوئی
کچھ نہیں درمیاں جزا نہ سزا
سنگ، دشنام، داغ، پھول کوئی
اس طرف اب رخ تعلق ہے
جہاں سود و زیان ذات نہیں
ڈر نہیں نیند ٹوٹ جانے کا
پاس وعدہ کی احتیاط نہیں
مجھ کو جس بات سے مکرنا تھا
اس کے دعوے میں اب وہ بات نہیں
بھر چکا جام شرط وصل جسے
صبح تک، آنسوؤں سے بھرنا تھا
ترک وعدہ کہ ترک خواب تھا وہ
کام سب ہو چکا جو کرنا تھا

نظم
ترک وعدہ کہ ترک خواب تھا وہ
اختر حسین جعفری