پا بہ گل رات ڈھلے گی نہ سحر آئے گی
کوئی سورج کسی مشرق سے نہ نکلے گا کبھی
ریزہ ریزہ ہوئے مہتاب زمانے گزرے
بجھ گئے وعدۂ موہوم کے سارے جگنو
اب کوئی برق ہی چمکے گی نہ ابر آئے گا
چار سو گھور اندھیرا ہے گھنا جنگل ہے
تو کہاں جائے گی پھنکارتے سناٹے میں
سرحد یاد گزشتہ سے پرے کچھ بھی نہیں
دیکھ اصرار نہ کر مان بھی لے لوٹ بھی جا
میں تری راہ کا پتھر سہی یہ بات تو سن
آگے کھائی ہے اگر راہ کا پتھر ہٹ جائے
نظم
ترک تعلق
شاذ تمکنت