چلمنوں کے اس طرف جگمگاتی زندگی
سامنے آ کر نقاب رخ کو سرکاتی ہوئی
مجھ سے ہنس کر کہہ رہی ہے میرا دامن تھام لے
ڈوبتے تارے نمود صبح سے سہمے ہوئے
ملگجی دھندلاہٹوں میں جھلملا کر کھو گئے
جاگتی آنکھوں میں اک گزری ہوئی دنیا لیے
اس طرف میں ہوں مرے ماضی کی بڑھتی دھند ہے
دھندلے دھندلے نقش لا حاصل تمناؤں کی راکھ
روشنی کے دائرے سے دور یادوں کا خمار
اک طرف جلتی فصیلوں سے دھواں اٹھتا ہوا
اک طرف آسودگیٔ آرزو کے نرم خواب
خم بہ خم راہیں سفر کی گرد میں کھوئی ہوئی
جلتی آنکھوں میں سنہرے خواب زاروں کے سراب
روز و شب کے جلتے بجھتے دائروں کو توڑ کر
آرزو کی وسعتیں صحرا بہ صحرا بے کنار
نا تراشیدہ چٹانیں راستہ روکے ہوئے
اک صدائے بازگشت اپنی نواؤں کا جواب
اشکہائے صبح گاہی سے سحر کھلتی ہوئی
رات کی تاریکیاں دل کے لہو سے لالہ زار
ایک سوز آرزو انفاس میں رچتا ہوا
ایک مبہم درد دل کی خلوتوں میں بے قرار
بس یہی صبحیں یہی شامیں یہی بے نام درد
عمر بھر کی جد و جہد شوق کا حاصل رہے
تیرہ بخت آنکھوں میں ایسے خواب کے پیکر بسے
جن سے منہ موڑوں تو ہر آسائش دنیا ملے
چلمنوں کے اس طرف سے جگمگاتی زندگی
سامنے آ کر نقاب رخ کو سرکاتی ہوئی
مجھ سے ہنس کر کہہ رہی ہے میرا دامن تھام لے
نظم
ترغیب
محمود ایاز