اپنی یاد لیتی جاؤ
اب نہ رکھ سکوں گا میں
اس کو میری تنہائی
ساتھ رکھ نہیں سکتی
مجھ کو میری تنہائی
بار بار کہتی ہے
اس سے میرا کیا رشتہ
اس سے میری بن پائے
یہ کبھی نہیں ممکن
رات دن بگڑتی ہے
لڑتی ہے جھگڑتی ہے
جانتی ہوں میں لیکن
اس کے بس میں رہتا ہوں
رات پھر یہ جھگڑا تھا
لاکھ اس کو سمجھایا
آ پڑی ہے ضد ایسی
کہہ اٹھی تھی جھلا کر
مانتے نہیں تو پھر
تم سے دوستی کیسی
اتنا وہ بگڑتی ہے
جتنا اس کو کہتا ہوں
لیتی جاؤ یاد اپنی
اب نہ رکھ سکوں گا میں
اپنی یاد لیتی جاؤ
نظم
تنہائی
صابر دت