وہ آنکھوں پر پٹی باندھے پھرتی ہے
دیواروں کا چونا چاٹتی رہتی ہے
خاموشی کے صحراؤں میں اس کے گھر
مرے ہوئے سورج ہیں اس کی چھاتی پر
اس کے بدن کو چھو کر لمحے سال بنے
سال کئی صدیوں میں پورے ہوتے ہیں
وہ آنکھوں پر پٹی باندھے پھرتی ہے
نظم
تنہائی
عادل منصوری