EN हिंदी
تنہا | شیح شیری
tanha

نظم

تنہا

مصطفی زیدی

;

میں وہی قطرۂ بے بحر وہی دشت نورد
اپنے کاندھوں پہ اٹھائے ہوئے صحرا کا طلسم

اپنے سینے میں چھپائے ہوئے سیلاب کا درد
ٹوٹ کر رشتۂ تسبیح سے آ نکلا ہوں

دل کی دھڑکن میں دبائے ہوئے اعمال کی فرد
میرے دامن میں برستے ہوئے لمحوں کا خروش

میری پلکوں پہ بگولوں کی اڑائی ہوئی گرد
لاکھ لہروں سے اٹھا ہے مری فطرت کا خمیر

لاکھ قلزم مرے سینے میں دواں رہتے ہیں
دن کو کرنیں مرے افکار کا منہ دھوتی ہیں

شب کو تارے مری جانب نگراں رہتے ہیں
میرے ماتھے پہ جھلکتا ہے ندامت بن کر

ابن مریم کا وہ جلوہ جو کلیسا میں نہیں
راندۂ موج بھی ہیں مجرم ذرات بھی ہیں

میرا قصہ کسی افسانۂ دریا میں نہیں
میری تاریخ کسی صفحۂ صحرا میں نہیں