جب ایک سورج غروب ہوتا ہے
کم نظر لوگ یہ سمجھتے ہیں
اب اندھیرا زمیں کی تقدیر ہو گیا ہے
زمانہ زنجیر ہو گیا ہے
انہیں خبر کیا
کہ مہر و ماہ و نجوم سارے
تو روشنی کے ہیں استعارے
طلوع کا دل فروز منظر
غروب کا دل شکن نظارہ
ازل سے اس روشنی کا پرتو ہے
جو مسلسل سفر کے عالم میں
ہر مکاں لا مکاں کو اپنے جلو میں لے کر
رواں دواں ہے
یہ رات اور دن
ہر ایک ظاہر ہر ایک باطن
ہر ایک ممکن
اسی تسلسل کا زیر و بم ہے
نگار فطرت کا حسن رم ہے
افق افق پر یہی رقم ہے
کہ جو عدم ہے
وہ زندگی کا نیا جنم ہے
نظم
تناسخ
حمایت علی شاعرؔ