جب یہ بارش ذرا بھی تھمتی ہے
دور بجلی چمکنے لگتی ہے،
پھر قیامت کا شور ہوتا ہے،
ابر پھر یوں برسنے لگتا ہے،
جیسے نظروں کے سامنے اکثر
حسن کی بجلیاں چمکتی ہیں،
عشق جب زندگی کا طالب ہو
حسن بن کر عذاب آ جائے،
پتھروں کا مزاج لے آئے
سختیاں مانگ لے چٹانوں سے،
جذبۂ رحم کو فنا کر دے
عشق مجبور ہو کے آخر میں،
اپنی آنکھوں سے خون برسا دے،
نظم
تمثیل
انور ندیم