تماشا گہہ لالہ زار
''تیاتر'' پہ میری نگاہیں جمی تھیں
مرے کان ''میوزک'' کے زیر و بم پر لگے تھے
مگر میرا دل پھر بھی کرتا رہا تھا
عرب اور عجم کے غموں کا شمار
تماشا گہہ لالہ زار!
تماشا گہہ لالہ زار
اب ایراں کہاں ہے
یہ عشقی کا شہکار ''ایران کی رستخیز''
اب ایراں ہے اک نوحہ گر پیر زال
ہے مدت سے افسردہ جس کا جمال
مدائن کی ویرانیوں پر عجم اشک ریز
وہ نوشیرواں اور زر دشت اور داریوش
وہ فرہاد شیریں وہ کے خسرو و کے قباد
ہم اک داستاں ہیں وہ کردار تھے داستاں کے!
ہم اک کارواں ہیں وہ سالار تھے کارواں کے!
تہ خاک جن کے مزار
تماشا گہہ لالہ زار!
تماشا گہہ لالہ زار
مگر نوحہ خوانی کی یہ سرگرانی کہاں تک؟
کہ منزل ہے دشوار غم سے غم جاوداں تک!
وہ سب تھے کشادہ دل و ہوش مند و پرستار رب کریم
وہ سب خیر کے راہ داں راہ شناس
ہمیں آج محسن کش و نا سپاس
وہ شاہنشہان عظیم
وہ پندار رفتہ کا جاہ و جلال قدیم
ہماری ہزیمت کے سب بے بہا تار و پو تھے
فنا ان کی تقدیر ہم ان کی تقدیر کے نوحہ گر ہیں
اسی کی تمنا میں پھر سوگوار
تماشا گہہ لالہ زار!
تماشا گہہ لالہ زار
عروس جواں سال فردا حجابوں میں مستور
گرسنہ نگہ زود کاروں سے رنجور
مگر اب ہمارے نئے خواب کابوس ماضی نہیں ہیں
ہمارے نئے خواب ہیں آدم نو کے خواب
جہان تگ و دو کے خواب
جہان تگ و دو مدائن نہیں
کاخ فغفور و کسریٰ نہیں
یہ اس آدم نو کا ماویٰ نہیں
نئی بستیاں اور نئے شہریار
تماشا گہہ لالہ زار!
نظم
تماشا گہہ لالہ زار
ن م راشد