رات کی زلف سیہ اور سنورتی ہی رہی
رات کی زلف سیہ اور سنورتی ہی رہی
چاند کی بکھری ہوئی سرد شعاعوں سے الگ
اور کھمبوں کی سلگتی ہوئی آنکھوں سے الگ
اک نظر تھی جو خلاؤں میں بھٹکتی ہی رہی
سلوٹیں سوچ کی گہری ہوئیں گہری ہو کر
میرے ماحول پہ چھائی گئیں چھاتی ہی گئیں
میری بے تاب نظر چرخ سے ٹکرا ہی گئی
اور ٹکرائی تو پھر چرخ کی رعنائی گئی
گردشیں چاند ستاروں کی نظر آنے لگیں
گردشیں تیز ہوئیں، تیز ہوئیں، تیز ہوئیں
اور پھر تیز، بہت تیز، بہت تیز ہوئیں
جیسے یہ گردشیں کرتے ہوئے تارے، یہ چاند
کرۂ ارض سے یک بارگی ٹکرائیں گے
اور پھر گردشیں کرتا ہوا ہر اک تارا
از سر نو کرۂ ارض بنا ہی لے گا
اور پھر گردشیں کرتا ہوا یہ زرد سا چاند
اک افق اپنے لیے اور سجا ہی لے گا
کرۂ ارض جہاں موت نہ کاہش ہوگی
اک افق، جس میں تپش اور نہ سوزش ہوگی
تیز تر ہوتی گئیں گردشیں سیاروں کی
ناچتا ہی رہا محور پہ وہ پیلا مہتاب
اور ہر سمت اسی گردش پیہم کا خروش
اور پھر رہ نہ گیا رقص کے انداز میں جوش
ایک پروانہ گرا شمع فسردہ کے قریب
ایک تارے نے کہا ٹوٹ کے، لو میں تو چلا
اور پھر گردشیں کرتا ہوا
اور پھر میں تھا وہی مرتا سلگتا ماحول
رقص کرتے ہوئے سیاروں کی سعی ناکام
رات کی زلف سیہ اور سنورتی ہی رہی
نظم
طلب گار مرد تھا
نازش پرتاپ گڑھی