میں اپنی روح عذاب گر سے یہ کہہ رہا تھا
کہ روح کی پیاس اور بدن کی طلب میں
ایک ربط باہمی ہے
نہ روح سرشار ہے نہ تابندگی تن ہے
یہ ریزہ ریزہ جو رزق پہنچا ہے تار و پو کا
سرشتۂ نا تواں ہے عرض ہنر کے دامان بے رفو کا
یہ لقمۂ خشک و حلق فرسا
کبھی تو لذت شعار کام و دہن بھی ہوتا
فصیل تن ماورائے پس خوردگی بھی ہوتی
میں دست کوتاہ گیر دولت سے پوچھتا ہوں
کہ عمر بھر تو نے کاغذی پیرہن سیے کیوں
زبان آلودہ کار کو سی کے بیٹھ جاتا
تو سخت کوش عذاب سود و زیاں نہ سہتی
یہ لمحے آثار باقیہ ہیں
کہ جن میں سانسیں بھی گھٹ رہی ہیں
طلب ہے دریوزہ گر کہ اس نے
شکست دل کی پناہ ڈھونڈی
قلم چلا ہے تو روشنائی کے اشک ٹپکا
نہ لوح دل پر
حریف کو اپنے ساتھ مقتل کی دھوپ میں لا
سواد محرومئ بشر تو نہیں
گزر گاہ نا مرادی
پہاڑ کاٹے ہیں جرأتوں نے
خرابۂ ذہن پر تمازت غرور کی ہے
سمن بری سایہ گستری ہے
اسی کو زہراب آگہی دے
اسی سے تعمیر آشیاں کر
نظم
طلب ہے دریوزہ گر
قمر ہاشمی