EN हिंदी
تلاش | شیح شیری
talash

نظم

تلاش

ظہور نظر

;

ایک محراب پھر دوسری پھر کئی
بے کراں تیرگی میں ہویدا ہوئیں

کوئی تھا
کوئی ہے

کوئی ہوگا کہیں
ساعتیں تین اک ساتھ پیدا ہوئیں

روح کے ہاتھ میرے بدن کا گلا
گھونٹ کر تھک گئے

ہاتھ میرے بدن کے بھی اٹھے مگر
دامن خواہش رائیگاں تک گئے

انگلیاں ٹوٹ کر کرچیاں ہو گئیں
مٹھیاں بند ہونے سے مجھ پر کھلا

ہڈیاں کانچ کی میرے ہاتھوں میں تھیں
اب مرے جسم میں میری ہی کرچیاں

ڈھونڈھتی پھر رہی ہیں مجھے اور میں
اپنے ٹوٹے ہوئے ہاتھ تھامے ہوئے

خوف کی اس گپھا میں چھپا ہوں جہاں
ایک محراب پھر دوسری پھر کئی

بے کراں تیرگی میں ہویدا ہوئیں
کوئی تھا

کوئی ہے
کوئی ہوگا کہیں

ساعتیں تین اک ساتھ پیدا ہوئیں