غسل طہارت کے لیے ڈوبا افق میں آفتاب
افروختہ قندیل اپنی ہاتھ میں اپنے لیے
راہبانہ رات پھرتی ہے
فلک پر سوگوار
جستجو سے شل ہیں اب
چپو چلاتے ہاتھ ماہ و سال کے
بے صبر، جھک کر ہاتھ سے اپنے فنا
وسط سمندر میں اٹھاتی ہے بھنور
ہوتی ہے مہلت ختم
اب تو پردۂ اخفا اٹھا
میرے مقدس خواب کی تعبیر تو
اپنی جھلک مجھ کو دکھا دے ایک بار
کہ چھین لینے کو فنا ہے مجھ سے تیرا انتظار
نظم
تلاش
آصف رضا