یوں لگتا ہے
پچھلے کچھ سالوں سے
شب کی سیاہی گہری ہو گئی ہے
شاید ایک لمحے کو دوسرا لمحہ بھی نہیں سوجھتا
ذی فہم دانشور
اپنے احساس پہ لگے زخموں کو
ماہ و انجم بنائے
کسی جدید سورج کے طلوع ہونے کے منظر
معصوم جیالے
اپنے زخموں کو سنبھالے
نئے وار سے بچنے کی تلاش میں
کوئی کسی کے دوستی بھرے سفید گھر میں بے فکر
کوئی کسی کے دعاؤں کا منتظر
نظم
تلاش
افروز عالم