ذروں میں جنبش تھی کوئی چھائی تھی فضا پر مدہوشی
اک نیند تھی ہر شے پر طاری قدرت بھی تھی محو خاموشی
روشن نہ ستارے تھے اوپر ویران فلک کی بستی تھی
لالہ نہ زمیں پر کھلتا تھا بے رنگ نگار ہستی تھی
آہیں نہ لبوں پر آتی تھیں مضطر نہ تنوں میں جانیں تھیں
دل میں نہ امنگیں اٹھتی تھیں جذبات کی بند زبانیں تھیں
تھا حسن تخیل میں اب تک خلعت نہ ملا تھا صورت کا
بیتاب نگاہیں تھیں ساری وا در نہ ہوا تھا جنت کا
2
جب روز ازل کی صبح ہوئی اک نور کا دریا لہرایا
فطرت کے اٹھے پردے سارے بیدار جہان راز ہوا
ساحل کا سکوں دھارے کی تڑپ بے تابیاں موج طوفاں کی
امرت بھری شبنم کے قطرے رنگینیاں باغ رضواں کی
پھولوں کی مہک کندن کی دمک بجلی کے شراروں کی چمکیں
شام اور سحر کے حسیں جلوے تاروں کے تبسم کی جھلکیں
خلاق زماں نے ان سب کا ست کھینچ کے مٹی پر چھڑکا
طبقات زمیں میں ہوئی ہلچل اک پھول کنول کا پھبک اٹھا
پھر بطن سے ان کے اک دیوی پیدا ہوئی بزم امکاں میں
رکھا گیا نام عورت اس کا خوشیاں ہوئیں باغ رضواں میں
نظم
تخلیق عورت
امیراورنگ آبادی