راگ ڈوب جاتے ہیں
ساز ٹوٹ جاتے ہیں
آسماں کے گوشوں میں
ان گنت ستاروں کے
دیپ بجھنے لگتے ہیں
دن کی دھوپ میں اکثر
وصل ممکنہ کے سب عہد چھوڑ دیتے ہیں
باتوں میں کھنک ناپید
اور چمک نگاہوں میں
ماند پڑتی جاتی ہے
ریشمین لہجے بھی
کھردرے سے لگتے ہیں
صحبتوں میں پہلی سی
بے خودی نہیں رہتی
چہرۂ رفاقت پر زردی
چھانے لگتی ہے
جذب عشق کو تھک کر
نیند آنے لگتی ہے
تجربے کی سرحد پر آ کے بھید کھلتا ہے
کوئی بھی تعلق ہو، ایک سا نہیں رہتا
نظم
تجربے کی سرحد پر
ماہ طلعت زاہدی