سن رہی ہو اینٹ پتھر کے سرکنے کی صدا
ٹوٹی چھت پر بیٹھ کر آکاش کو تکتی ہو کیا
اس کھنڈر کو چھوڑ کر آؤ چلیں میدان میں
اس طرف وہ جھاڑیوں کا جھنڈ ہے حجلہ نما
آؤ اس میں چل کے ہم اک دوسرے کو دیکھ لیں
اور دیکھیں پتھروں کے یگ میں کیسا پیار تھا
گھر بنے بگڑے، بسے اجڑے نگر ہر دور میں
ایک یہ جنگل ہی ایسا ہے کہ جیوں کا تیوں رہا
آؤ چل کر جھاڑیوں کے جھنڈ میں سو جائیں ہم
پھر سے پانے کے لیے اک دوجے میں کھو جائیں ہم

نظم
تجدید
عمیق حنفی