بہت دور سے ایک آواز آئی
''میں اک غنچۂ ناشگفتہ ہوں، کوئی مجھے گدگدائے
میں تخلیق کا نغمۂ جاں فزا ہوں، مجھے کوئی گائے
میں انسان کی منزل آرزو ہوں مجھے کوئی پائے
بہت دور سے ایک آواز آئی
میں ہاتھوں میں لے کر تجسس کہ مشعل
بہت دور پہنچا ستاروں سے آگے
مری رہ گزر کہکشاں بن کے چمکی
مرے ساتھ آئی افق کے کنارے
مرے نقش پا بن گئے چاند سورج
بھڑکتے رہے آرزو کے شرارے
وہ آواز تو آ رہی ہے مسلسل
مگر عرش کی رفعتوں سے اتر کر
میں فرش یقیں پر کھڑا سوچتا ہوں
ہر اک جادۂ رنگ و بو سے گزر کر
مری جستجو انتہا تو نہیں ہے
ابھی اور نکھریں گے رنگیں نظارے
یہ بے نور ذرے بنیں گے ستارے
ستارے بنیں گے ابھی ماہ پارے
یہ آواز جادو جگاتی رہے گی
یہ منزل یونہی گیت گاتی رہے گی
نئے آدمی کو نئے کارواں کو
پیام تجسس سناتی رہے گی
نظم
تجسس
رفعت سروش