اس سرائے میں مسافر کا قیام
ایک لمحہ بے یقینی کا
جس کو جنت یا جہنم جو بھی کہہ لو
کیا کسی پہ انحصار
ہر کوئی اپنے عمل کا ذمے دار
بھول کر بھی یہ نہ سوچو
کہ مقدر بھی بناتا ہے کوئی
ورنہ جو ہے سامنے چپ چاپ دیکھو
کیا بھلا ہے کیا برا
جب تلک سہنے کی طاقت ہے سہو
حال دل اپنا کسی سے مت کہو
اب تو رسماً ہی زباں پر پرسش احوال ہے
دم دلاسہ پیار ہمدردی خلوص
ایسے سب الفاظ سینے کی لغت سے اڑ چکے ہیں
اس سرائے میں مسافر کا قیام
موت کے کھٹکے سے مر جانے کا نام!
نظم
تجسس
اختر راہی