اک دن جو بہم ہوں گے
تجھ سے ترے درماندہ
کیا عرض گزاریں گے
کیا حال سنائیں گے
موہوم کشیدہ ہے
تصویر قیامت کی
شاید نہ سنا پائیں
تفصیل مسافت کی
لب بستہ رہیں شاید
یہ دن جو گزارے ہیں
محرم ہے کوئی کس کا
یا زخم کی سرگوشی
یا ہمارے ہیں
آنکھوں پہ کئے سایہ
کب دور تلک دیکھا
لرزاں تھی زمیں کس پل
کب سوئے فلک دیکھا
کب دشت کی تنہائی
آنکھوں میں اتر آئی
کب وہم سماعت تھی
کب کھو گئی گویائی
کس موڑ پہ حیراں تھے
کس راہ میں ویراں تھے
اجمال حقیقت کے
شاید نہ رقم ہوں گے
اک دن جو بہم ہوں گے
تک لیں گے تری صورت
اور سر کو جھکا لیں گے
مل ڈالیں گے آنکھوں کو
گر یاد سراب آئے
گم صم تری چوکھٹ پر
ہو جائیں گے ہم شاید
چھو کر ترے دامن کو
سو جائیں گے ہم شاید
نظم
تفصیل مسافت کی
فہمیدہ ریاض