EN हिंदी
تعطیلات | شیح شیری
tatilat

نظم

تعطیلات

خالد عرفان

;

بڑوں کو اور چھوٹوں کو انہیں صدمات نے مارا
مجھے دفتر انہیں کالج کی تعطیلات نے مارا

کبھی سردی کی چھٹی ہے کبھی گرمی کی چھٹی ہے
یہ سب اس کے علاوہ ہیں جو ہٹ دھرمی کی چھٹی ہے

کبھی تعطیل کھانے کی کبھی تعطیل پینے کی
پڑھائی دو مہینے چھٹیاں ہیں دس مہینے کی

ابھی پرسوں تو ہے رنگینیٔ حالات کی چھٹی
پھر اس کے بعد پورے ماہ ہے برسات کی چھٹی

کبھی اسکول میں استاد کے سر درد کی چھٹی
ہوائے سرد چل جائے تو پھر ہر فرد کی چھٹی

کبھی افسر کو تھوڑا سا بخار آ جائے تو چھٹی
کبھی سسرال سے بیگم کا تار آ جائے تو چھٹی

کبھی ٹیبل پہ رکھ کے پاؤں سو جانا بھی چھٹی ہے
کبھی دفتر سے اٹھ کر گول ہو جانا بھی چھٹی ہے

ابھی تو درد کے آثار کچھ باقی ہیں سینے میں
ابھی تو بیس ہی ناغے ہوئے ہیں اس مہینے میں

غرض جو تین سو پینسٹھ دنوں کے گوشوارے ہیں
ہمارے تین سو دن ہیں فقط پینسٹھ تمہارے ہیں