سنگ مرمر کی خنک بانہوں میں
حسن خوابیدہ کے آگے مری آنکھیں شل ہیں
گنگ صدیوں کے تناظر میں کوئی بولتا ہے
وقت جذبے کے ترازو پہ زر و سیم و جواہر کی تڑپ تولتا ہے!
ہر نئے چاند پہ پتھر وہی سچ کہتے ہیں
اسی لمحے سے دمک اٹھتے میں ان کے چہرے
جس کی لو عمر گئے اک دل شب زاد کو مہتاب بنا آئی تھی!
اسی مہتاب کی اک نرم کرن
سانچۂ سنگ میں ڈھل پائی تو
عشق رنگ ابدیت سے سرافراز ہوا
کیا عجب نیند ہے
جس کو چھو کر
جو بھی آتا ہے کھلی آنکھ لیے آتا ہے
سو چکے خواب ابد دیکھنے والے کب کے
اور زمانہ ہے کہ اس خواب کی تعبیر لیے جاگ رہا ہے اب تک!
نظم
تاج محل
پروین شاکر