اللہ میں یہ تاج محل دیکھ رہا ہوں
یا پہلوئے جمنا میں کنول دیکھ رہا ہوں
یہ شام کی زلفوں میں سمٹتے ہوئے انوار
فردوس نظر تاج محل کے در و دیوار
افلاک سے یا کاہکشاں ٹوٹ پڑی ہے
یا کوئی حسینہ ہے کہ بے پردہ کھڑی ہے
اس خاک سے پھوٹی ہے زلیخا کی جوانی
یا چاہ سے نکلا ہے کوئی یوسف ثانی
گلدستۂ رنگیں کف ساحل پہ دھرا ہے
بلور کا ساغر ہے کہ صہبا سے بھرا ہے
آغوش تجلی میں نظر سوئی ہوئی ہے
یا شام کے زانو پہ سحر سوئی ہوئی ہے
یا بر لب جمنا کوئی دوشیزہ نہا کر
بیٹھی ہے تکلف سے اداؤں کو چرا کر
ٹھہری ہوئی یا حسن کے مرکز پہ نظر ہے
یا وقت کے ہاتھوں میں گریبان سحر ہے
یا کوئی بط مست ہے جو تیر چکی ہے
آ کر ابھی دریا کے کنارے پہ رکی ہے
یا نور کا ٹیکا کوئی ساحل کی جبیں پر
یا عالم بالا اتر آیا ہے زمیں پر
یا حسن کے اقبال کا چمکا ہے ستارا
نکھری ہوئی چاندی ہے کہ ٹھہرا ہوا پارا
حوضوں کے خزانے ہیں کہ بکھرے سے پڑے ہیں
پہرے پہ نگہبان ہیں یا سرو کھڑے ہیں
یا تاج قرینے سے ابھی رکھ کے زمیں پر
سویا ہے کوئی بادشہ وقت یہیں پر
تصویر لئے لیتا ہے ہر حوض کا پانی
گویا کہ جوانی کے مقابل ہے جوانی
قدرت نے اسے اوج دیا خاک پہ لا کے
یہ سادہ سا موتی تھا خزانے میں خدا کے
ہے تخت تو موجود سلیماں کی کمی ہے
جنت کا دریچہ تو ہے رضواں کی کمی ہے
یہ گل کدہ کہئے جسے فردوس کا خاکہ
ہے دفن یہیں خاک میں سرمایہ وفا کا
گوشے میں اسی قصر کے دو دل ہیں ہم آغوش
شعلے ہیں مگر مصلحت وقت سے خاموش
اس خواب میں ان کو نہیں خود اپنی خبر تک
اک نور اڑا جاتا ہے پرواز نظر تک
نظروں میں ابھی تک وہی دلچسپ سماں ہے
آنکھوں میں مری خواب گہ شاہجاں ہے
نظم
تاج محل
محشر بدایونی