EN हिंदी
تعاقب | شیح شیری
taaqub

نظم

تعاقب

فاروق مضطر

;

شب و روز
جانے مجھے کیوں یہ احساس ہے

کوئی میرے تعاقب میں بڑھتا چلا آ رہا ہے
میں خود ہی ان بھاری قدموں کی آواز کے بوجھ

سے دب رہا ہوں
کہ میں اپنے ہی دست و بازو میں اب لمحہ لمحہ سمٹنے لگا ہوں!

میں اب خود ہی میں ذرہ ذرہ بکھرنے لگا ہوں!
میں اب اپنی ہمسائیگی سے بھی ڈرنے لگا ہوں!

میں شاید! خود اپنی صدا کے تعاقب میں چلنے لگا ہوں
کہ

تشکیک اور لا یقینی
کے دھندلے مناظر لئے آنکھ میں

آپ اپنے لہو کے دہکتے جہنم میں
جلنے لگا ہوں!

مرے حافظے میں تعاقب کی کوئی بھیانک کہانی ہے
محفوظ شاید!!