اس باغ میں پیڑ تھے بہت سے
جتنے تھے سبھی ہرے بھرے تھے
صرف ایک اس جھنڈ سے جدا تھا
بے برگ اداس اک طرف کھڑا تھا
دیکھا تو وہیں ٹھہر گیا میں
بے نام غموں سے بھر گیا میں
''کیوں رک گئے'' تم نے مجھ سے پوچھا
میں چپ رہا کیا جواب دیتا
کہتا کہ یہ نقش حسرتوں کا
پیکر ہے گزشتہ موسموں کا
یہ میری تمہاری داستاں ہے
مرتے ہوئے عشق کا نشاں ہے
نظم
سوکھا پیڑ
منیب الرحمن