EN हिंदी
سُودی بیگم | شیح شیری
sudi begam

نظم

سُودی بیگم

عمران شمشاد

;

کون ہے سودی بیگم
اس کو جانتے ہو تم

وہ جس کے قبضے میں تھے رضیہ کے کنگن
جس کے ہاتھوں میں تھی رضیہ کی ہر آتی جاتی سانس کی ڈور

جس کے پاس پڑے تھے اس کے گروی خواب
رضیہ کی شادی سر پر تھی

اور دل میں تھا
سودی بیگم کی سودی آنکھوں کا خوف

سودی بیگم کے چنگل سے
سود و زیاں کے اس جنگل سے

رضیہ بھاگنا چاہتی تھی
ورنہ اک دن سودی بیگم

اس کے اک اک پل کا سونا کھا جائے گی
اور اس کے بالوں میں چاندی آ جائے گی

رضیہ کے اندیشے اس کو ڈستے رہتے
راتوں کو اٹھ اٹھ کر اس پر ہنستے رہتے

بے کل بے کل روتی رہتی
رضیہ بھل بھل روتی رہتی

اس کے ہونٹوں اور گالوں سے ہجرت کر گئی ساری لالی
روتے روتے اک دن رضیہ کی آنکھیں بھی ہو گئیں خالی

خالی آنگن خالی برتن
اور اندر کے خالی پن سے عاجز آ کر

روز روز کی اس الجھن سے عاجز آ کر
اس نے اک ترکیب نکالی

گلک توڑا
سکے جوڑے

چپل پہنی
مجبوری کی چادر اوڑھی

گھر سے نکلی
رکشا پکڑا

اور اک بینک کے دروازے پہ جا اتری وہ
بینک میں پہلا قدم رکھا تو اس کی چپل

موٹے سے قالین میں دھنس گئی
رضیہ پھر غنڈوں میں پھنس گئی