غم ہے اک کیف میں فضائے حیات
خامشی سجدۂ نیاز میں ہے
حسن معصوم خواب ناز میں ہے
اے کہ تو رنگ و بو کا طوفاں ہے
اے کہ تو جلوہ گر بہار میں ہے
زندگی تیرے اختیار میں ہے
پھول لاکھوں برس نہیں رہتے
دو گھڑی اور ہے بہار شباب
آ کہ کچھ دل کی سن سنا لیں ہم
آ محبت کے گیت گا لیں ہم
میری تنہائیوں پہ شام رہے؟
حسرت دید ناتمام رہے؟
دل میں بیتاب ہے صدائے حیات
آنکھ گوہر نثار کرتی ہے
آسماں پر اداس ہیں تارے
چاندنی انتظار کرتی ہے
آ کہ تھوڑا سا پیار کر لیں ہم
زندگی زرنگار کر لیں ہم
نظم
سرو دشبانہ
فیض احمد فیض