سرخ اناروں کے موسم میں
ریشم کے ملبوس سے پھوٹا
عریانی کی دھوپ کا جھرنا
آئینے میں
گردن کے گلدان سے نکلا
پھول سا چہرہ
آہستہ سے
گندھے ہوے بالوں کی ڈالی
گر کے گھاٹ پہ جھک جاتی ہے
اک لمحے کو ہر شے جیسے رک جاتی ہے
پلک جھپکتے آئینے میں
اک خونی ڈائن کا عکس ابھر آتا ہے
چھت پر اک فانوس کی مٹھی
آہستہ سے کھل جاتی ہے
جیسے چیل کے پر کھلتے ہیں
خوشبو رنگ ہوا اور سائے
اس لمحے پتھرا جاتے ہیں
آنکھوں کی شیشی میں کیسی زمروں کا تیزاب بھرا ہے
قطرہ قطرہ
اس تیزاب کی لفظوں میں تقطیر ہوئی ہے
دیکھتے دیکھتے
آس کی صورت
میری ہی تصویری ہوئی ہے

نظم
سرخ اناروں کے موسم میں
سرمد صہبائی