EN हिंदी
سورج کا المیہ | شیح شیری
suraj ka alamiya

نظم

سورج کا المیہ

پریم واربرٹنی

;

مرے پیچھے بہت پیچھے
مرے ماضی کے لمبے غار میں سانپوں کا ڈیرا ہے

جہاں پر ہول ہیبت ناک بھوتوں کا بسیرا ہے
مرے آگے بہت آگے

مرا رنگین مستقبل ہے اک پھولوں کی وادی ہے
کہ جس کی گود میں خوابوں کی الھڑ شاہزادی ہے

مرے پیچھے
اندھیرے غار ہیں مکڑی کے جالے ہیں

مرے آگے
سنہرے خواب ہیں کرنوں کے ہالے ہیں

میں سرگرم سفر ہوں اپنی منزل کی طرف لیکن
مری بڑھتی ہوئی وحشت کا عالم کوئی کیا جانے

یہ لمحے ہاں یہی اڑتے ہوئے لمحے نہ ہاتھ آئے
اجڑ کر رہ گئے خوش رنگ خوابوں کے صنم خانے

میں اپنے ہی لہو کی آگ میں جلتا رہا برسوں
کھنکتے ہی رہے ہر بزم ہر محفل میں پیمانے

میں اپنے دور کا مہر درخشاں ہوں مگر پھر بھی
یہ اندھا وقت شاید عمر بھر مجھ کو نہ پہچانے

یہ اندھا وقت شاید عمر بھر مجھ کو نہ پہچانے