سنو ہمدم میں رستہ بھول بیٹھی ہوں
اداسی کا گھنا جنگل
مرے احساس پہ تاریکیوں کے ان گنت سائے بچھاتا ہے
مجھے آسیب کی صورت ڈراتا ہے
ہوا کی چیخ میری نیند کو ایسے نگلتی ہے
کہ جیسے آگ سوکھی لکڑیوں کو راکھ کرتی ہے
جہاں میں پاؤں رکھتی ہوں
وہاں پر وسوسوں کے ناگ پھن پھیلائے بیٹھے ہیں
میں جتنے زور سے آواز دیتی ہوں
مری خاموشیاں اپنے تسلسل میں مجھے آنے نہیں دیتیں
مری آواز گھٹ جاتی ہے اندر ہی کہیں پر ڈوب جاتی ہے
سنو ہمدم
میں تنہا ہوں
کبھی آؤ پکڑ کر ہاتھ لے جاؤ
مجھے تاریکیوں کی رات سے روشن دنوں تک ساتھ لے جاؤ
نظم
سنو ہمدم
ناز بٹ