EN हिंदी
سنہری مچھلی | شیح شیری
sunahri machhli

نظم

سنہری مچھلی

دپتی مشرا

;

بات ہے تو کچھ عیب سی
لیکن پھر بھی ہے

ہو گئی تھی محبت
ایک مرد کو

ایک سنہری مچھلی سے
لہروں سے اٹکھیلیاں کرتی

بل کھاتی چمچاتی مچھلی
بھا گئی تھی مرد کو

ٹکٹکی باندھے پہروں
دیکھتا رہتا وہ

اس شوخ کی اٹھکھیلیاں
مچھلی کو بھی اچھا لگتا تھا

مرد کا اس طرح سے نہارنا
بندھ گئے دونوں پیار کے بندھن میں

ملن کی خواہش فطری تھی
مرد نے مچھلی سے التجا کی

ایک بار صرف ایک بار
پانی سے باہر آنے کی کوشش کرو

محبت کا جنون
اتنا شدید تھا کہ

بغیر کچھ سوچے سمجھے
مچھلی پانی سے باہر آ گئی

چھٹ پٹا گئی
بہت بری طرح سے چھٹ پٹا گئی

لیکن اب
وہ اپنے محبوب کی بانہوں میں تھی

محبت کی کیفیت میں
کچھ پل کو

ساری تڑپ ساری چھٹ پٹاہٹ جاتی رہی
دو بدن اک جان ہو گئے

سیراب ہو کر محبوب نے
محبوبہ کو پانی کے سپرد کر دیا

بڑا انوکھا بڑا مسرت انگیز
اور بڑا دردناک تھا یہ میل

ہر بار پوری طاقت بٹور کر
چل پڑتی محبوبہ

محبوب سے ملنے
تڑپھڑاتی چھٹ پٹاتی

پیار دیتی پیار پاتی
سیراب کرتی سیراب ہوتی

اور پھر لوٹ آتی پانی میں
ایک دن

مچھلی کو جانے کیا سوجھی
اس نے مرد سے کہا

آج تم آؤ
میں پانی میں کیسے آؤں

کچھ پل اپنے سانسیں روک لو
مچھلی نے کہا

سانس روک لوں
یعنی جینا روک لوں

کچھ پل جینے کے لئے ہی تو آتا ہوں میں
تمہارے پاس

سانس روک لوں گا تو جیوں گا کیسے
مرد نے کہا

مچھلی سکتے میں تھی
ایک ہی پل میں:

مرد کی فطرت اور محبت کے
باہمی رشتے کی سچائی

اس کے سامنے تھی
اب

کچھ جاننے پانے اور چاہنے کو
باقی نہیں بچا تھا

مچھلی نے بے کیف نگاہوں سے
مرد کو دیکھا

اور ڈوب گئی
بے پناہ گہرائیوں میں

ادھر خود سے بے خبر مرد
جینے کی خواہش لئے ابھی تک وہیں بیٹھا ہے

اور سوچ رہا ہے میرا قصور کیا ہے