EN हिंदी
سنہری دروازے کے باہر | شیح شیری
sunahri darwaze ke bahar

نظم

سنہری دروازے کے باہر

فاروق نازکی

;

لرزتے بدن
رنگ کہرے میں لپٹے ہوئے

ادھ مری روشنی کا کفن اوڑھ کر
موت کی سر زمیں میں اجالوں پہ قربان ہونے سے پہلے

بہت دیر تک
اپنے احساس کی آنچ سہتے رہے

شام
نیم تاریک راہوں پہ ماتھا رگڑتی رہی

کانپتی تھرتھراتی شب غم کے سانچے میں ڈھلنے سے پہلے
بہت دیر تک

سرد فانوس کے پاس ٹھہری رہی
چاند

آکاش کے گہرے نیلے سمندر میں تاروں کی اندر سبھا سے
بہت دیر تک

موت کی سرزمیں پر اجالوں کی گل پوشیاں کر رہا تھا
لحد تا لحد کوئی سایہ نہ خاکہ

قدم تا قدم منزلوں کے نشاں گم
مکینوں سے خالی مکانوں کے در

تختیاں رہنے والوں کے ناموں کی لے کر
بہت دیر تک منتظر تھے مگر

کوئی دستک نہ آہٹ
ادھر

بے زباں شہر کی تیرگی میں
لرزتے بدن

کیف و کم کے بدلتے ہوئے زاویوں میں
الجھتے چھلکتے بکھرتے سمٹتے رہے

اور کہرے میں لپٹے ہوئے
شاخ در شاخ روشنی سے گزر کر

صلیبوں کے سائے میں دم لے رہے ہیں