EN हिंदी
سنا یہی ہے | شیح شیری
suna yahi hai

نظم

سنا یہی ہے

جاوید ناصر

;

خموش رہنا، کبھی سر ہلا کے سن لینا
ہوا میں چاند بنانا، بنا کے چن لینا

عجیب دور تھا چاروں طرف اداسی تھی
زمین اپنی ہی تنہائیوں کی پیاسی تھی

کبھی شراب کبھی شاعری کبھی محفل
پھر اس کے بعد دھڑکتا ہوا اکیلا دل

خود اپنے گھر میں ہی گھر سے الگ تھلگ رہنا
کتاب جاں کے لیے رات بھر غزل کہنا

یہ اور بات بڑے حوصلے کا شاعر تھا
میں اپنی نیند کا روٹھا ہوا مسافر تھا