یہ جو اک نور کی ہلکی سی کرن پھوٹی ہے
کون کہتا ہے اسے صبح درخشاں اے دوست
مجھ کو احساس ہے باقی ہے شب تار بھی
لیکن اے دوست مجھے رقص تو کر لینے دے
کم سے کم نور نے الٹا تو ہے اک بار نقاب
ایک لمحے کو تو ٹوٹا ہے طلسم شب تار
اس سے ثابت تو ہوا صبح بھی ہو سکتی ہے
پردۂ ظلمت شب چاک بھی ہو سکتا ہے
صبح کاذب بھی تو ہے اصل میں دیباچۂ صبح
صبح کاذب بھی تو ہے صبح درخشاں کی نوید
ایک اعلان کہ ہنگام وداع شب ہے
قافلہ نور سحر کا ہے بہت ہی نزدیک
جلد ہونے کو ہے خورشید درخشاں کی نمود
نظم
صبح کاذب
گوپال متل