تو چلی جا کہ مجھے تیری ضرورت بھی نہیں
میں شب و روز کی مٹی سے دوبارہ بھی جنم لے لوں گا
میں جو زندوں میں ہوں زندوں میں نہیں
میں پرندوں میں درندوں میں نہیں
فقط انسانوں میں موجود ہے سایہ میرا
مدتیں بیت گئی ہیں مگر انجام نہ آیا میرا
میں سپاہی تو نہیں پھر بھی لڑی ہیں کئی جنگیں میں نے
پہلی ہی جنگ تھی وہ جس میں کٹے ہاتھ مرے
دوسری جنگ میں بازو بھی گئے
تیسری جنگ میں پھوٹی مری دونوں آنکھیں
اور پھر جنگ پہ جنگ
اب مرے جسم کا حصہ نہیں ایسا کوئی
جس میں زخموں کے نشاں رات سے کم گہرے ہوں
آخری زخم لگایا تو نے
تو نے خاموشی کی شمشیر سے مارا مجھ کو
اب جنم لینا ہے دنیا میں دوبارہ مجھ کو
پھر نئے ہاتھ نئے بازو نئی آنکھ لگانی ہے مجھے
پھر مسیحائی دکھانی ہے مجھے
پھر نئی جنگ کی کرنی ہے مجھے تیاری
آنکھ کو پھوڑنا ہے ڈھونڈنی ہے بیداری
تو مجھے مار کے خوش تھی کہ میں مر جاؤں گا
سوکھی مٹی کی طرح خود ہی بکھر جاؤں گا
مگر اے میری اذیت کی امیں
میں ترے خون میں موجود رہوں گا ہر وقت
سرخ ذروں کی طرح جن میں ہوا ہوتی ہے
زندہ رہنے کی ادا ہوتی ہے
تو مجھے کون سی تلوار سے کاٹے گی بتا
اب سفر میرا تری چلتی ہوئی سانس کے اندر ہوگا
نظم
سوتا جاگتا سایہ
شہزاد احمد