جب ہم چھوٹے چھوٹے سے تھے
ہم سایے میں ایک بڑی بی رہتی تھی
گلی محلے کے سب بچے اس کو ماسی کہتے تھے
ماسی کی اک عجب ادا تھی
گلی محلے کے جس بچے پر بھی اس کا داؤ چلتا
مکوں اور دھمکوں سے
ادھ موا سا کر کے خود چھپ جاتی
فریادی بچے کی آہ و زاری سن کر
رستہ چلنے والے یا بچے کے اپنے آ جاتے تو
مجمع چیر کے سب سے پہلے ماسی آتی
رونے والے بچے کو سینے سے لگاتی
شہد بھرے لمحے میں کہتی
میرے پیارے
آنکھ کے تارے
کس نے مارا
بچہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے
ماسی کو تکتا رہ جاتا
اور قصہ ٹھنڈا ہو جاتا
ہم سب بچے
نا سمجھی میں
ماسی سے نفرت کرتے تھے
مورکھ تھے نا
ماسی کے اصلی قد کو پہچان نہ پائے
اب جا کر یہ سمجھ سکے ہیں
گھر گھر برتن مانجھنے والی اپنی ماسی
کتنی بڑی سیاست داں تھی
نظم
سیاست
منصورہ احمد