EN हिंदी
سری کرشن | شیح شیری
siri kirshn

نظم

سری کرشن

سیماب اکبرآبادی

;

ہوا طلوع ستاروں کی دل کشی لے کر
سرور آنکھ میں نظروں میں زندگی لے کر

خودی کے ہوش اڑانے بصد نیاز آیا
نئے پیالوں میں صہبائے بے خودی لے کر

فضائے دہر میں گاتا پھرا وہ پریت کے گیت
نشاط خیز و سکوں ریز بانسری لے کر

جہان قلب سراپا گداز بن ہی گیا
ہر ایک ذرہ محبت کا ساز بن ہی گیا

جمال و حسن کے کافر نکھار سے کھیلا
ریاض عشق کی رنگیں بہار سے کھیلا

پیمبروں کی کبھی رسم کی ادا اس نے
گوالا بن کے کبھی سبزہ زار سے کھیلا

بہا دئے کبھی ٹھوکر سے پریم کے چشمے
کبھی جمن کبھی گنگا کی دھار سے کھیلا

ہنسی ہنسی میں وہ دکھ درد جھیلتا ہی رہا
کرشمہ باز زمانے سے کھیلتا ہی رہا

کیا زمانے کو معمور اپنے نغموں سے
سکھائے عشق کے دستور اپنے نغموں سے

صداقت اور محبت کی اس نے دی تعلیم
اندھیریوں میں بھرا نور اپنے نغموں سے

لطافتوں سے کیا ارض ہند کو لبریز
کثافتوں کو کیا دور اپنے نغموں سے

فلک کو یاد ہیں اس عہد پاک کی باتیں
وہ بانسری وہ محبت کی سانولی راتیں

دلوں میں رنگ محبت کو استوار کیا
سواد ہند کو گیتا سے نغمہ بار کیا

جو راز کوشش نطق و زباں سے کھل نہ سکا
وہ راز اپنی نگاہوں سے آشکار کیا

اداسیوں کو نئی زندگی عطا کر دی
ہر ایک ذرے کو دل دے کے بے قرار کیا

جو مشرب اس کا نہ اس طرح عام ہو جاتا
جہاں سے محو محبت کا نام ہو جاتا