پھول نے عشق کیا تتلی سے
اور تتلی تھی کہ منڈراتی رہی
جانے کیا سوچ کے گھبراتی رہی
سوچتے سوچتے رفتہ رفتہ
زانوئے گل پہ مگر بیٹھ گئی
جینے مرنے کی بھی کھائی قسمیں
پھر اڑی لوٹ کے آئی نہ کبھی
ایک دن ایسا ہوا
دست گلچیں میں وہی قید ہوئی
ایک صیاد کی وہ صید ہوئی
اور پھر سینکڑوں منت کے بعد
پھڑپھڑاتی رہی آزاد ہوئی
اب تو وہ باغ میں
جانے سے بہت ڈرتی ہے
گل پہ مرتی تھی
اب بھی مرتی ہے
اک طرف پھول ہے پژمردہ اداس
صرف شبنم سے نہیں بجھتی پیاس
نظم
صرف شبنم سے نہیں بجھتی پیاس
خورشید اکبر