خدا نے الاؤ جلایا ہوا ہے
اسے کچھ دکھائی نہیں دے رہا ہے
ہر اک سمت اس کے خلا ہی خلا ہے
سمٹتے ہوئے دل میں وہ سوچتا ہے
تعجب کہ نور ازل مٹ چکا ہے
بہت دور انسان ٹھٹھکا ہوا ہے
اسے ایک شعلہ نظر آ رہا ہے
مگر اس کے ہر سمت بھی اک خلا ہے
تخیل نے یوں اس کو دھوکا دیا ہے
ازل ایک پل میں ابد بن گیا ہے
عدم اس تصور پہ جھنجھلا رہا ہے
نفس دو نفس کا بہانہ بنا ہے
حقیقت کا آئینہ ٹوٹا ہوا ہے
تو پھر کوئی کہہ دے یہ کیا ہے وہ کیا ہے
خلا ہی خلا ہے خلا ہی خلا ہے
نظم
سلسلۂ روز و شب
میراجی