دوریوں کی دھند میں گم
ہو چکا ہے کارواں اب
اٹھ رہا ہے دور تک کالا دھواں جو
مڑ کے اس کو تک رہا ہے
گھپ اندھیرے غار کی تہ میں اکیلی
ناتواں اک زندگی پنجوں کے بل
پتھر کی اونچی سیڑھیوں پر
ہانپتی کوشش کی بیساکھی کو تھامے
رینگتی ہے!
پانیوں کی آگ میں جھلسی ہوئی نظریں ٹکی ہیں
دور اونچائی پہ دروازے سے آتی روشنی پر
چار سو بکھرے ہوئے بس
ناامیدی کے خس و خاشاک ہیں
اوپر کو جاتی ان گنت پتھر کی اونچی
سیڑھیاں ہیں!!
نظم
سیڑھیاں
پروین شیر